تعلیمِ نسواں: ضرورت اور طریقہٴ کار

 

از: مولانا غفران ساجد قاسمی         

‏ جنرل سکریٹری: رابطہ، صحافتِ اسلامی ہند

 

          مغرب سے جنم لینے والے ”آزادیِ نسواں“اور”حقوقِ نسواں“جیسے دل فریب اور پُرکشش نعروں کی طرح گزشتہ برسوں میں”تعلیمِ نسواں“کے خوش نمانعرہ نے بھی کافی ترقی کی ہے اورحالیہ چندبرسوں میں برصغیرایشیا بالخصوص ہندستان کے مختلف علاقوں میں”تعلیمِ نسواں“کے اسی خوش کن نعرہ کے نتیجہ میں بڑے پیمانے پرمدارسِ نسواں کا وجود ہوا اور روز بروزیہ تعدادبڑھتی ہی جارہی ہے۔تعلیم،یاتعلیم نسواں بہرصورت ضروری ہے،ضروری ہی نہیں؛بلکہ اسلام نے اسے فرض قراردیاہے۔یہ مذہبِ اسلام کاہی امتیازی وصف ہے کہ دیگرتمام ادیان ومذاہب کے مقابلہ میں اس نے علم کے حصول پرزیادہ زوردیاہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے محبوب اورآخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرجوسب سے پہلی وحی نازل کی اس میں بھی”اقراء“کے ذریعہ پڑھنے کی ہی تعلیم دی اورعلم کی اسی اہمیت کے پیش نظرنبیِ امی محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم نے”طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَةٌ عَلیٰ کُلِّ مسلم“(متفق علیہ) ارشاد فرما کر ہر مسلمان مردوعورت پرعلم کاحصول فرض قراردیا۔

          دنیاکی تاریخ اورقوانینِ عالم سے واقفیت رکھنے والاہرشخص بخوبی جانتاہے کہ دنیاکی سب سے عظیم طاقت(Super Power)کہلانے والی تنظیم”اقوامِ متحدہ(UNO)نے اپنے منشورمیں علم حاصل کرنے کوانسان کابنیادی حق قراردیاہے؛جب کہ اسلام نے علم حاصل کرنے کوفرض قراردیاہے۔اورحق اورفرض میں واضح فرق یہ ہے کہ حق نہ لینے پرزورزبردستی اورکسی قسم کامواخذہ نہیں ہے؛ جب کہ اس کے برعکس فرض کی عدم ادائے گی کی صورت میں انسان سزا کا مستحق ہوتاہے۔اس سے بھی پتہ چلتاہے کہ حصولِ علم کی سب سے زیادہ اہمیت،فضیلت اور تاکید مذہبِ اسلام میں ہی ہے۔

          یہ ایک ناقابلِ انکارحقیقت ہے کہ علم حاصل کرنے کے سلسلے میں مذہبِ اسلام کی تاکید مرد و زن کے لیے یکساں ہے۔غورکرنے کامقام ہے کہ بھلاوہ مذہب جس نے دنیائے انسانیت کواخوت وبھائی چارگی کاسبق سکھایا،ظلم وتفریق کے دَلدَل میں دھنسی ہوئی انسانیت کوعدل ومساوات کادرس دیا،ذلیل ترین اورحقیرشے سمجھی جانے والی صنفِ نازک کوسماج اورمعاشرہ میں باوقار مقام عطاکیا․․․بھلاوہ مذہب معاشرہ اورسماج کی نصف آبادی․․․ عورت․․․․کوتعلیم جیسی عظیم نعمت سے کیسے محروم رکھ سکتاتھا۔حضورِاقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے بلاتفریقِ جنس اورامیروغریب کے حصول علم کی تاکیدکرتے ہوئے ارشادفرمایا:”طلب العلم فریضة علیٰ کلم مسلم“ (متفق علیہ) اوربرملااعلان فرمادیاکہ علم حاصل کرناہرمسلمان مردوعورت پرفرض ہے۔علم کسی کی جاگیرنہیں ہے۔ایسانہیں ہے کہ صرف مردوں کوہی علم حاصل کرنے کاحق ہے اورعورتیں اس حق سے محروم ہیں،اسی طرح صرف اُمراء اورروٴساء علم کواپنے گھرکی لونڈی بناکررکھیں گے اورغریب علم کے لیے ترسیں گے؛ بلکہ اسلام نے یہ اعلان کردیاکہ ہرشخص اپنی حیثیت اوراستطاعت کے بقدرعلم حاصل کرے گااورضرورت کے بقدرعلم حاصل کرناہرمسلمان مردوعورت کے لیے فرض قراردیاگیا۔اوریہ بات واضح ہے کہ فرائض کی عدم ادائے گی کی صورت میں انسان سزاکامستحق ہوتاہے۔اس تفصیل سے ایک بات توواضح طورپرسمجھ میں آ تی ہے کہ علم کاحاصل کرناہرمسلمان مرد و عورت پرفرض ہے،اورمردوں کاعلم حاصل کرنا،اس کے لیے دوردرازمقام کاسفرکرناتو روایتوں اور اسلاف واکابرکے واقعات سے ثابت ہے؛لیکن عورتوں کے علم حاصل کرنے کاطریقہ کیا ہو اور اس کے لیے نصابِ تعلیم کیاہو،اوروہ کتناعلم اورکن کن لوگوں سے علم حاصل کرے، زیر نظر مضمون کاموضوعِ بحث یہی ہے۔

          موجودہ دورمیں تعلیمِ نسواں کے علمبرداروں نے بڑے پیمانے پرمدارسِ نسواں قائم کیے ہیں اور ان مدارسِ نسواں میں سے زیادہ ترتواقامتی ادارے ہیں،جہاں طالبات کے قیام وطعام کامکمل نظم ہے اوران کے ذمہ داران بھی عموماًمردحضرات ہی ہیں،اوربہت سارے غیراقامتی مدارس نسواں بھی ہیں؛لیکن دونوں طرح کے مدارس نسواں میں جوایک بات قدرِمشترک ہے وہ دونوں اداروں کے ذمہ داران کامردہوناجوکہ اپنے آپ میں ایک لمحہٴ فکریہ ہے۔

          مناسب معلوم ہوتاہے کہ اصل گفتگوشروع کرنے سے قبل مختصراًاسلام سے قبل عورتوں کی کیاحالت تھی اوردیگرادیان ومذاہب میں عورتوں کے ساتھ کیساسلوک روارکھاجاتاتھا،اورتعلیم وتعلّم سے متعلق دیگرادیان ومذاہب کاکیانظریہ تھااوراسلام میں علم کاکیامقام ہے ،اس پرروشنی ڈالی جائے۔

اسلام سے قبل عورت کامقام

          تمدنِ انسانی کی پوری تاریخ کابہ نظرغائرمطالعہ کیاجائے تویہ بات آفتابِ نیم روزکی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ عورت کاوجوددنیامیں ذلت وشرم اورگناہ کاوجودتھا۔بیٹی کی پیدائش باپ کے لیے؛ بلکہ سارے کنبے کے لیے سخت عیب اورموجبِ ننگ وعارتھی۔

بدھ مت میں عورت

          پانی کے اندرمچھلی کی طرح ناقابلِ فہم عادتوں کی طرح عورت کی فطرت بھی ہے،اس کے پاس چوروں کی طرح متعددحربے ہیں اورسچ کااس کے پاس گزرنہیں۔(انسائیکلوپیڈیاآف مذہب واخلاق۔۲۷۱،بحوالہ اسلام میں عورت کادرجہ اوراس کامقام:۳۴)

ہندودھرم میں عورت

          برہمن ازم میں شادی کوبڑی اہمیت حاصل ہے،ہرشخص کوشادی کرناچاہیے؛لیکن منو (منوسمرتی مذہبی قانون کی کتاب کانام)کے قوانین کی روسے ”شوہربیوی کاسرتاج ہے۔اسے اپنے شوہرکوناراض کرنے والاکوئی کام نہیں کرناچاہیے،حتیٰ کہ وہ اگردوسری عورتوں سے تعلقات رکھے یامرجائے تب بھی کسی دوسرے مردکانام اپنی زبان پرنہ لائے۔اگروہ نکاحِ ثانی کرتی ہے تو وہ سورگ(جنت)سے محروم رہے گی، جس میں اس کاپہلاشوہررہتاہے،زوجہ کے غیروفادار ہونے کی صورت میں اسے انتہائی کڑی سزادی جانی چاہیے،عورت کبھی بھی آزادنہیں ہوسکتی،وہ ترکہ نہیں پاسکتی،شوہرکے مرنے پراپنے سب سے بڑے بیٹے کے تحت زندگی گزارنی ہوگی، شوہر اپنی بیوی کولاٹھی سے بھی پیٹ سکتاہے۔(ایضاً)بلکہ ویدوں کے مطابق عورتوں کوویدکی تعلیم کی اجازت بھی نہیں تھی۔“(حوالہ سابق)

چین میں عورت

          مسٹررے اسٹریجی چین میں عورت کی حیثیت کے بارے میں لکھتاہے:”مشرق بعیدیعنی چین میں حالات اس سے بہترنہیں تھے،چھوٹی لڑکیوں کے پیروں کوکاٹھ مارنے کی رسم کامقصدیہ تھاکہ انھیں بے بس اورنازک رکھاجائے،یہ رسم اگرچہ اعلیٰ اورمال دارطبقات میں رائج تھی؛ لیکن اس سے ”آسمانی حکومت“کے دورمیں عورتوں کی حالت پرروشنی پڑتی ہے۔“(یونیورسل ہسٹری آف دی ورلڈ:۱/۳۳۸،ایضاً)

انگلستان(یورپ) میں عورت

          انگلستان میں اسے ہرقسم کے شہری حقوق سے محروم رکھاگیاتھا،تعلیم کے دروازے اس پربندتھے،صرف چھوٹے درجہ کی مزدوری کے علاوہ کوئی کام نہیں کرسکتی تھی اورشادی کے وقت اسے اپنی ساری املاک سے دستبردارہوناپڑتاتھا․․․․․یہ کہاجاسکتاہے کہ قرونِ وسطیٰ سے انیسویں صدی تک عورت کوجودرجہ دیاگیاتھا،اس سے کسی بہتری کی امیدنہیں کی جاسکتی تھی۔(تہذیب وتمدن پراسلام کے اثرات واحسانات،بحوالہ سابق)

ہندوستانی سماج میں عورت

          برہمنی زمانہ اورتہذیب میں عورت کاوہ درجہ نہیں رہاتھاجوویدی زمانہ میں تھا۔منوکے قانون میں (بقول ڈاکٹرلی بان)عورت ہمیشہ کمزوراوربے وفاسمجھی گئی ہے اوراس کاذکرہمیشہ حقارت کے ساتھ آیاہے۔شوہرمرجاتاتوعورت گویاجیتے جی مرجاتی اورزندہ درگورہوجاتی،وہ کبھی دوسری شادی نہ کرسکتی،اس کی قسمت میں طعن وتشنیع اورذلت وتحقیرکے سواکچھ نہ ہوتا،بیوہ ہونے کے بعد اپنے متوفی شوہرکے گھرلونڈی اوردیوروں کی خادمہ بن کررہناپڑتا،اکثربیوائیں اپنے شوہروں کے ساتھ ستی ہوجاتیں۔ڈاکٹرلی بان لکھتاہے:”بیواوٴں کواپنے شوہروں کی لاش کے ساتھ جلانے کاذکرمنوشاسترمیں نہیں ہے؛ لیکن معلوم ہوتاہے کہ یہ رسم ہندوستان میں عام ہوچکی تھی؛ کیوں کہ یونانی موٴرخین نے اس کاذکرکیاہے۔“(تمدن ہند:۲۳۸)

عورت اسلام کے سایہ میں

          اسلام کے آنے کے بعدعورتوں کی حالت میں جوتبدیلی رونماہوئی اس کاذکرکرتے ہوئے مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی نے بڑااچھانقشہ کھینچاہے۔مولانالکھتے ہیں:”یہی وہ حالات تھے کہ مکہ کے پہاڑوں سے آفتاب کی پُرنورکرنیں پورے جاہ وجلال کے ساتھ نمودارہوتی ہیں،اورنہ صرف قانونی اورعملی حیثیت سے؛ بلکہ ذہنی حیثیت سے بھی اسلام ایک عظیم انقلاب برپا کردیتا ہے۔ اسلام ہی نے عورت اورمرددونوں کوبدلاہے۔عورت کی عزت اوراس کے حق کاتخیل ہی انسان کے دماغ میں اسلام کاپیداکیاہواہے۔آج حقوقِ نسواں،تعلیم نسواں اوربیداری اناث کے جوبلندبانگ نعرے پردئہ سماع سے ٹکرارہے ہیں،یہ اسی انقلاب انگیزصداکی بازگشت ہے، جو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے بلندہوئی تھی اورجس نے افکارِانسانی کے رخ کا دھارا پھیردیا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جنہوں نے دنیاکوبتایاکہ عورت بھی ویسی ہی انسان ہے جیسامرد۔“(پردہ:۱۸۹)

          اسی طرح اسلام میں عورتوں کامقام اوراس کی اہمیت اس حدیث سے بھی اجاگرہوتی ہے جس میں حضورِاقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے لیے دوہرے اجرکی بشارت دی ہے، جس نے اپنی باندی کی بہترتعلیم وتربیت کی، پھراسے آزادکیااوراس سے شادی کرلی۔ (بخاری:۱/۲۰) غورکرنے کامقام ہے کہ جومذہب ایک باندی کی تعلیم وتربیت پردوہرے اجرکی خوش خبری دیتا ہو، بھلااس مذہب میں اپنی بیٹی اوربہن کی تعلیم وتربیت پرکس قدراجروثواب ہوگا۔

          دیگرادیان ومذاہب میں عورتوں کی حیثیت اوراسلام نے عورتوں کوجوعزت ومقام عطاکیا،اس کے تقابلی مطالعہ کے بعدیہ بھی ملاحظہ کرتے چلیں کہ اسلام میں علم کی کیااہمیت ہے اوردیگرادیان ومذاہب میں تعلیم وتعلم کے بارے میں کیاتصورپایاجاتاہے۔

علم اسلام کی نظرمیں

          اسلام نے علم کی اہمیت اوراس کی قدروقیمت پرمکمل طورپرروشنی ڈالی ہے۔اس نے تعلیم کوانسان کی،خواہ مردہویاعورت بہت سی ضرورتوں میں سے ایک ضرورت ہی نہیں؛بلکہ تمام انسانوں کی اولین اوربنیادی ضرورت قراردیاہے۔اسلام کے علاوہ دنیاکاکوئی مذہب اورنظریہ ایسا نہیں ہے، جس نے تعلیم کوتمام انسانوں کی ایک بنیادی ضرورت قراردیاہو،حتیٰ کہ یونان اورچین بھی جواپنی علمی ترقیات کی وجہ سے غیرمعمولی شہرت کے حامل ہیں،اس کے قائل نہ تھے ،یہ اسلام ہی ہے جس نے عام شہریوں کی بھی تعلیم کاتصورپیش کیااوردینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم کے حصول کوبھی جائزقراردیا۔(اسلام اورعلم:۳)

علم اوردیگرادیان ومذاہب

          اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب میں علم توایک صرف محدودمذہبی طبقہ میں منحصر تھی، ”ہندودھرم“کی روسے شودروں کے لیے”ویدوں“شلوک سننابھی ناجائزتھااوران کے لیے سزایہ تھی کہ ان کے کانوں میں گرم سیسہ ڈالاجاتاتھا۔عیسائی مذہب میں فکری آزادی پراتنی پابندی تھی کہ ان آدمیوں کوسخت سزادی جاتی تھیں جوکوئی نیاعلمی نظریہ پیش کرتے تھے،عیسائی علماء اتنے تنگ نظرتھے کہ کسی بھی نئی بات کوبرداشت نہیں کرسکتے تھے،ان کی کوتاہ نظری کی وجہ سے بہت سے مفکربے دین اوربہت سارے حکماء جادوگرقراردیے گئے، جس کانتیجہ یہ نکلاکہ ان کے یہاں ذہنی ارتقاء بالکل رک گئی۔(اسلام اورعلم:۳)

          اسپین میں جب مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی اورملک کے گوشہ گوشہ میں مدارس قائم ہوئے تویورپی طالب علموں کاتانتابندھ گیا۔وہ یہاں آ کرتعلیم حاصل کرتے اوراپنے ملک واپس جاکراس کی تبلیغ وترویج کرتے،گویاکہ یہ صرف اسلام کی برکت اورمسلمانوں کی فراخ دلی کانتیجہ تھاکہ یورپ میں علم وحکمت کی روشنی پھیلی۔خودیورپ کے موٴرخین اورمفکرین اس کے معترف ہیں۔ رابرٹ، بریفالٹ اورڈاکٹرموسیولیبانی نے اس اعتراف کووضاحت سے لکھاہے۔(اسلام اورعلم:۳)

          مذکورہ بالاسطورسے یہ بات روزِروشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ جس طرح دیگرادیان و مذاہب میں عورتوں کی کوئی حیثیت نہ تھی،وہ سماج اورمعاشرہ کی ذلیل ترین مخلوق سمجھی جاتی تھی، مردوں کے لیے اس کی حیثیت صرف ایک کھلونااوردل کوبہلانے والی شئی سے زیادہ نہ تھی،اسی طرح دیگرادیان ومذاہب میں علم بھی ایک خاص طبقہ کے لیے مخصوص تھا،عورتوں کاحصولِ علم توبہت دورکی بات ہے خودشودرقوموں کے لیے مطلقًاعلم ایک شجرممنوعہ کی حیثیت رکھتی تھی۔یہ اسلام کی ہی برکت ہے کہ جہاں وہ ایک طرف سماج کی دبی کچلی معصوم اورمظلوم مخلوق کوباعزت مقام عطاکیا،وہیں دوسری طرف اسلام نے علم کی اہمیت وفضیلت کواجاگرکرتے ہوئے بہ بانگِ دُہل اعلان کردیاکہ علم کاحاصل کرناہرمسلمان پرفرض ہے۔

          مندرجہ بالاسطورکوپڑھیں اورغورکریں کہ اس روئے زمین پراسلام کے علاوہ کوئی بھی ایسا مذہب ہے، جس نے سماج کی نصف آبادی کواتنے واضح اورمساویانہ حقوق عطاکیے ہوں، اور ساتھ ہی حصولِ علم کے سلسلہ میں سماج کے دونوں صنف کویکساں حقوق عطاکیے ہوں۔آپ دنیاکی تاریخ پڑھ ڈالیں،مذاہب کاتقابلی مطالعہ کریں توآپ کومعلوم ہوگاکہ اسلام کے علاوہ کسی مذہب اورنہ ہی کسی انسانی قانون نے عورتوں کواتنے مساوی حقوق دیے ہیں۔آزادیِ نسواں اورحقوق نسواں کے نام نہادعلمبرداروں نے عورتوں کوآزادی اورحقوق دلانے کے نام پراسے بازاروں اور محفلوں کی زینت بنادیااورانہوں نے یہ ڈھنڈوراپیٹاکہ اسلام عورتوں کی آزادی کامخالف اورعورتوں کے حقوق کوغصب کرنے والا مذہب ہے اورعورتوں کوصحیح حق تومغرب نے دیاہے؛ لیکن اہلِ خرد اور اہلِ دانش بخوبی واقف ہیں کہ آزادیِ نسواں اورحقوقِ نسواں کی آڑ میں عورتوں کا کس قدر استحصال کیاجارہاہے۔آزادیِ نسواں اورحقوقِ نسواں کی آڑمیں مغرب کاخاندانی نظام تباہ ہوچکاہے اوراہلِ مغرب بھی اس خوشنمافریب سے باہرآنے کوپرتول رہے ہیں اوردنیابھی فطرت کی طرف لوٹنے پرمجبورہے۔

          ایک ایسے وقت اورایسے ماحول میں جب کہ معاشرہ کی نصف آبادی خوداپنی حیثیت اوراپنے مقام سے ناآشناہے جواسے اسلام نے عطاکیاہے،ضرورت ہے کہ وہ اپنے مقام کوجانے،اپنی حیثیت کوپہچانے؛ تاکہ وہ مغرب کے خوشنمانعروں سے متاثرنہ ہوسکے اوراسلام اورمغرب کوحقیقت کی آنکھ سے دیکھ سکے۔اوریہ تبھی ممکن ہے جب عورت تعلیم یافتہ ہوگی اوراپنے حقوق سے واقف ہوگی اوراس واقفیت کے لیے اسے زیورِتعلیم سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے۔اوریہ ذمہ داری اسلام نے مردوں کوسونپ دی ہے جوکہ عورت کے مقابلہ میں طاقتورصنف ہے۔اب یہ مستقل بحث ہے کہ تعلیم کاطریقہٴ کارکیاہو؟

لڑکیوں کی تعلیم اورطریقہٴ کار:

          لڑکیوں کی تعلیم ضروری ہے اس سے کوئی انکارنہیں کرسکتا؛لیکن تعلیم کاطریقہٴ کار کیاہو؟ آیا وہی طریقہ اپنایاجائے جولڑکوں کی تعلیم کے لیے رائج ہے یااسلاف کے طریقوں میں غوروخوض کرکے بہترطریقہٴ کارتلاش کیاجائے۔اس سلسلہ میں جب ماضی کے دریچوں میں جھانک کرتعلیم نسواں پرغورکرتے ہیں تودورنبوت کے ایک واقعہ سے اس سلسلہ میں رہنمائی ضرورملتی ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی تعلیم وتربیت کے لیے ایک علاحدہ دن مقرر فرمایا تھا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ جس طرح مردوں کے لیے مسجدنبوی میں صفہ کاتذکرہ ملتاہے عورتوں کے لیے اس طرح کے کسی صفہ یاکسی خاص مقام کا تذکرہ دورنبوی میں نظر نہیں آتا۔ خیرالقرون میں خواتین اپنے محارم اور شوہروں سے علم دین حاصل کرتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدخلافت راشدہ کے زمانے میں اوراس کے بعدبھی بے شمار محدثات،فقیہات،ادیبہ اورشاعرات کاذکرتوملتاہے لیکن باضابطہ کسی مدرسہٴ نسواں کاکوئی ادنیٰ ساذکربھی نہیں ملتا،اورنہ ہی خواتین کاحصول علم کے لیے دوردرازمقام کے سفرکاکوئی تذکرہ تاریخ وسیرکی کتابوں میں دستیاب ہے۔(کم ازکم راقم السطور کی نظروں سے ایساکوئی واقعہ نہیں گزرا) جب کہ ایسانہیں ہے کہ اس دورمیں باکمال خواتین پیدا نہیں ہوئیں؛بلکہ ہرزمانہ اور ہر عہد میں ہر فن میں ممتازخواتین پیداہوئیں جنہوں نے اپنے علم وفن سے عالم انسانیت کوحیران وششدر کردیا؛لیکن ساتھ ہی یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ دورِنبوت سے لے کرہندوستان کی مغلیہ حکومت تک کسی بھی زمانہ میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے باضابطہ کسی مدرسہٴ نسواں کاوجود تاریخ میں نہیں ملتاہے۔ اس سے یہ مطلب نہ نکالاجائے کہ لڑکیوں کی تعلیم ضروری نہیں ہے۔

          اس سلسلہ میں حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ کاتعلیمِ نسواں اور مدارسِ نسواں کے سلسلہ میں جوخیالات تھے اورانہوں نے جوطریقہٴ کاراپنایا،اس کاذکرمدارسِ نسواں کے منتظمین کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگا۔حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ نے تھانہ بھون کے مدرسہٴ نسواں کاذکرکرتے ہوئے تحریرفرمایاہے:

          ”میں نے بھی تھانہ بھون میں ایک لڑکیوں کامدرسہ قائم کیاہے،لڑکیاں معلمہ کے گھرمیں جمع ہوجاتی ہیں(وہی گھرگویالڑکیوں کامدرسہ ہے)اورمیں ان کی خدمت کردیتاہوں؛لیکن میں نے یہاں تک احتیاط کررکھی ہے کہ میں خودکسی لڑکی کوبھیجنے کی ترغیب نہیں دیتا،یہ انہی معلمہ سے کہہ دیاہے کہ سب تمہاراکام ہے تم جتنی لڑکیوں کوبلاوٴگی تنخواہ زیادہ ملے گی،اس مدرسہ میں ماہانہ امتحان بھی ہوتاہے،سولڑکیاں کبھی امتحان دینے کے لیے گھرپرچلی آتی ہیں اورمیری اہلِ خانہ یعنی بیویاں یامیرے خاندان کی کوئی بی بی ان کاامتحان لے لیتی ہیں اورکبھی لڑکیوں کونہیں بلایاجاتا؛بلکہ ممتحنہ وہیں چلی جاتی ہیں اورامتحان لے لیتی ہیں اورصرف امتحان کانتیجہ میرے سامنے پیش ہوجاتا ہے اورباقی ان پرمیرانہ کوئی اثراورنہ دخل۔ نمبر ممتحنہ دیتی ہیں،ان نمبروں پرانعام میں تجویز کرتا ہوں۔ الحمدللہ اس طرزپرمدرسہ برابرچلاجارہاہے اورایک بات بھی کبھی خرابی کی نہیں ہوئی (الغرض) لڑکیوں کی تعلیم کاانتظام یا تو اس طورپرہوکہ لڑکیاں جمع نہ ہوں،اپنے اپنے گھروں یامحلہ کی بیبیوں سے تعلیم پائیں؛لیکن آج کل یہ عادتاًبہت مشکل ہے۔یااگرایک جگہ جمع ہوں توپھریہ انتظام ہوکہ مرداُن سے سابقہ نہ رکھیں اوراپنی مستورات سے نگرانی کروائیں،ان سے خودبات چیت بھی نہ کریں۔

          دوسرے اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ سکریٹری(ناظم)بضرورت متقی بن جائے،چاہے وہ آزادخیال ہو؛مگراسے مولوی کی شکل بناناچاہیے؛ تاکہ معلمہ پراس کے تقویٰ کااثرپڑے۔

          میری دانست میں تعلیمِ نسواں کے یہ اصول ہیں،آگے اورلوگ اپنے تجربوں سے کام لیں، کچھ میرے خیالات کی تقلیدضروری نہیں۔(اصلاح حقوق وفرائض:۴۰۱-۴۰۴)

مقام فکر

          حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کاطریقہٴ کاردیکھنے کے بعداندازہ ہوتاہے کہ حضرت تھانوی جیساحکیم الامت،مدبر،مصلح اوراپنے وقت کے مجددجہاں ایک طرف عورتوں کی تعلیم کوضروری سمجھتے ہیں،وہیں لڑکیوں کی تعلیم کے سلسلہ میں حددرجہ احتیاط سے کام لیتے تھے کہ احتیاطاًکوئی ایسا گوشہ کمزورنہ ہوجس سے کسی فتنہ کے درآنے کاخدشہ ہو،حضرت تھانوی نے اپنے عمل سے آنے والی نسل کویہ پیغام دیاہے کہ بہرحال کام ہوناہے،لڑکیاں جوہمارے معاشرہ کی نصف آبادی ہیں انھیں زیورتعلیم سے آراستہ کرناہے؛ لیکن اس قدراحتیاط برتنی ہے کہ یہ تعلیم ان کے لیے ہر اعتبار سے مفیدہومضرنہ ہو،اوروہ دین کاعلم حاصل کرنے کے بعدایسی خاتون بنیں جوپورے معاشرہ کی اصلاح کاذریعہ ہو،نہ کہ اس کے عمل اورکردارسے فسادپھیلے۔حضرت تھانوی کامشورہ منتظمین کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتاہے کہ آپ چاہے جتنے بھی آزادخیال ہوں؛لیکن معلّمات اورطالبات پراچھااثرڈالنے کے لیے بہ ضرورت متقی بن جائیں؛ تاکہ معلّمات اورطالبات انھیں اپنااسوہ بنالیں اور ان کے کرداربھی اچھے ہوں۔یہ مشورہ موجودہ دورکے تمام مدارسِ نسواں کے منتظمین کے لیے سنگِ میل کادرجہ رکھتاہے۔

حرف آخر

          گفتگوکاماحصل یہ ہے کہ جس طرح عورتوں کواسلام نے باعزت مقام بخشااسی طرح عورتوں پرعلم کے حصول کوبھی فرض قراردیا۔گرچہ زمانہٴ ماضی اورعہداسلامی میں کسی مدرسہ نسواں کا وجود نہیں ملتا؛لیکن حالات اورزمانہ کی تبدیلی کے پیش نظرمدارسِ نسواں کاقیام ناگزیرہے؛البتہ مدارس نسواں کے منتظمین کوچاہیے کہ وہ حکیم الامت حضرت تھانوی کے اصول پرسختی سے کاربند رہتے ہوئے ادارہ کوچلائیں،انشاء اللہ اس کافائدہ عام ہوگااورخلقِ کثیرکواس سے نفع پہونچے گا اوران اداروں سے ایسی باکردارخواتین پیداہوں گی، جن سے دنیاکے گوشہ گوشہ میں اسلام پھیلے گااوران خواتین کے بطن سے مبلغینِ اسلام اورمجاہدینِ اسلام جنم لیں گے۔

$ $ $

 

------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 5‏، جلد: 98 ‏، رجب 1435 ہجری مطابق مئی 2014ء